اشفاق احمد صاحب

شاباش
اگر کسی کی شاعری دل پر دستک نہ دے تو ایک جملہ سنے میں آتا ہے کہ صاحب ٹھیک ہے بس روائتی زیادہ ہے۔ گویا شعر کا روائتی ہونا اس کے معیاری نہ ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ تجربہ صدیوں کے تخلیقی عمل سے گزر کر ہی روائت بنتا ہے اور روایت مزید صدیوں تک ساعتوں کو جگمگانے پر مامور ہوتی ہے۔ اس لئے جب جدت کے رسیاروائت کوتوڑ پھوڑ دیتے ہیں تو ان کا تخلیقی وجدان بھی شکست وریخت کا شکار ہو جاتا ہے مگر بعض خوش نصیب تخلیق کار ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی تخلیق کی عمارت روائت ہی کی بنیادوں پر اٹھاتے ہیں مگر اس طرح سے کہ اس پر روائت کا گمان نہیں ہوتا۔ اور یہی وہ تخلیق ہوتی ہے جسے قرن ہا قرن کے بعد روائت کا درجہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔

عماداظہر کا شمار ایسے ہی خوش بخت تخلیق کاروں میں ہوگا جس کے ثبوت کیلئے اس کی یہی ایک غزل کافی ہے

اس لئے حالت مسمار میں رکھی ہوئی ہے
زندگی شاخ نے دیوار میں رکھی ہوئی ہے

اتنی پسلی ہی نہیں اپنی خریدیں اس کو
جو محبت ترے بازار میں رکھی ہوئی ہے 

تو اکیلا نہ سمجھ مجھ کو کہ اپنے حق میں ہے
ایک تعداد بھی دربار میں رکھی ہوئی ہے

زندہ رہنے کیلئے سانس ضروری ہے مگر
اک تھکن سانس کی رفتار میں رکھی ہوئی ہے

میں پہاڑوں سے بہت دور نکل تو آیا
واپسی اب بھی کسی غار میں رکھی ہوئی ہے

میں عماداظہر کی شاعری کا استقبال بڑی خوشگوار حیرت کے ساتھ کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں اپنی آئندہ شاعری میں وہ “محتاط” ہونے سے گریز کریں گے کہ احتیاط وجدان کو زخمی کر دیتی ہے۔

شاباش عماداظهر! کیری آن!!

اشفاق احمد

2 3.4.02

Light
Dark