حیدر فاروق صاحب
تو سن طلسم کا ایسا شہسوار ہے جس کی رفتار سے زمانے جھڑتے اور ذات کے موسم ظہور پاتے ہیں، یہ ملگجوں کو روشن اور تاریکیوں کو خوش آثار کرنے کا ہنرور ہے، اس کے حواس پر ان کہی کا “بور” جنمتا ہے اور زمین ممکنات کوز رخیال کی ابدیت سمجھاتا ہے۔ یہ اوک ءجز میں حوض یقین جاری کرتا اور معطراشکوں کے چراغ پھولوں کے دائرے میں بہاتا ہے ، مجذوبیت کی چاپ سے راز آفاق کشید کرنے کی دھونی رماتا ہے اور بے نیازی کی بکل مار کے فقیروں کی صف میں سب سے آخری دکھائی دیتا ہے حالانکہ یہ نصف سفری ہے۔ اس کے ریاضت میں نیل کی چنیدہ لہروں پہ تیرتے صندوق کا گیت سنائی دیتا ہے اور فاصلوں میں ہتھیلیوں سے قبول ہو چکے ءریضوں کے چمکدار سفید کبوتر اڑ اڑ کر محراب دل پرگٹکوں گٹکوں کرتے ہیں ۔۔۔
زخم کے تیشے سے سرزمین اضطراب پرامید کی ایسی ندی رواں کرتا ہے جس کی چنچل لہروں کی کروٹ کروٹ چک پہ سفید پھولوں کے زمزمے قلانچیں بھرتے ہیں۔
عماد اظہر کی غزل اظہار سے زیادہ جذب کی لوری پی پی کر جوان ہوئی ہے، اس لیے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ وہ حتمی حقائق کا شراکت دار بننے کی سعی میں خود سے آگے نکل گیا ہے۔ سفر خسارے کا سہی مگر اک ذرا احتیاط ۔۔۔ گردسفر کوقوس قزح میں ڈھال سکتی۔ ابھی۔۔۔ کچھ اور مصرعے اور شبہ اس کی انگڑائیوں سے امڈیں گے اورنئی زبان اور اسلوب رائج کریں گے۔۔۔ ہم مل کے انتظار کرتے ہیں
۔۔۔ عجیب در ویش تاں ہو تو۔۔۔
حیدر فاروق