
راشدہ ماہین ملک
* خاموشی سے پرے کی بات *
“ساتواں دن” عماد اظہر کی وہ شعری کاوش ہے جو انسان کو محض لفظوں کی دنیا میں نہیں، بلکہ روح کے ایک ایسے سفر پر لے جاتی ہے جہاں سنا جاتا ہے، مگر کہا نہیں جاتا۔ یہ کتاب محض اشعار کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک خاموش مکالمہ ہے ! خود سے، کائنات سے، اور بالآخر اُس ذات سے جس سے ہر عاشقِ صادق لو لگاتا ہے۔
عماد اظہر کی شاعری میں وہ خاموشی بولتی ہے جو کہنے سے پرے کی بات ہے اور وہ علم جھانکتا ہے جو صرف دل کی آنکھ سے دکھائی دیتا ہے۔ ان کا ہر شعر جیسے ایک ایسے مسافر کی صدا ہے جو دنیا کے شور سے نکل کر سکوتِ عرفان کی گلیوں میں داخل ہو چکا ہے۔
“ساتواں دن” ایک ایسا لمحہ ہے جو وقت سے آزاد ہے ۔۔ایک ایسا بیان ہے جو لفظوں سے بے نیاز ہے۔ یہ کتاب اُن لوگوں کے لیے ہے جو کہنا نہیں صرف جاننا چاہتے ہیں۔
عماد اظہر کا یہ شعر:
“کہو تو سات دنوں کا قیام کر لوں
یہ کائنات مجھے راستے میں پڑتی ہے”
ظاہر کرتا ہے کہ وہ محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک روحانی سالک بھی ہیں جن کی شاعری ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق سے روشن ہے۔ ان کے کلام میں وقت، کائنات، اور وجود کی محدودیت محض ایک فانی رکاوٹ کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں، جبکہ ان کا دل اور روح ازل سے ابد کی اس روشنی کی طرف مائل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے روشن ہے
اس شعر میں سات دنوں کا قیام صرف دنیاوی وقت کی علامت نہیں، بلکہ ایک علامتی استعارہ ہے اُس عارضی ٹھہراؤ کا، جو کسی عاشقِ صادق کو محبوب کی بارگاہ تک پہنچنے سے پہلے کرنا پڑتا ہے۔ لیکن عماد اظہر کے نزدیک یہ ساری کائنات، اپنی وسعتوں سمیت، محض ایک “راستہ” ہے ! یعنی منزل کچھ اور ہے، جو اس دنیا سے ماوراء ہے اور وہ منزل دیدارِ مصطفیٰ، قربِ الٰہی اور روحانی فلاح ہے۔
عماد اظہر کی شاعری میں ایک ایسی روح بولتی ہے جو محض الفاظ کی حد تک محدود نہیں بلکہ قلبی واردات، باطنی کشف، اور روحانی سفر کی گواہ ہے۔ ان کے ہاں دنیا ایک عارضی سرائے ہے، اور اصل منزل آخرت کا وہ جہاں ہے جہاں وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر شعر ایک دعا، ایک طلب، اور ایک سفر کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عماد اظہر کی شاعری صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہے۔ وہ روح کے اُس جہان کی بات کرتے ہیں جہاں لفظ نور بنتے ہیں، اور خیال سجدہ کرتا ہے۔ ان کے اشعار میں عشقِ رسول ایسا جذبہ ہے جو اس جہان سے اگلے جہان تک پھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی انہیں محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک روحانی شاعر بناتا ہے، جن کی شاعری میں وقت بھی جُھک جاتا ہے اور کائنات بھی راستہ بن جاتی ہے۔
عماد اظہر کا یہ شعر :
“مجھ کو دفنائے ہوئے لوگ ملا کرتے ہیں
جو بتاتے ہیں بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے”
زندگی، موت، اور روح کی گہرائیوں پر ایک نہایت پراثر، پرمعنی اور فلسفیانہ اظہار ہے۔ یہ شعر اس دنیا کی سطحی حقیقتوں سے ماورا ہو کر اُن باطنی سچائیوں کی طرف لے جاتا ہے جنہیں صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو اپنی انا، خواہشات، اور فانی وجود کو ترک کر چکا ہو۔
شاعر جن “دفنائے ہوئے لوگوں” کا ذکر کرتا ہے، وہ ممکنہ طور پر وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے دنیاوی ظواہر سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے یا جو اپنی روحانی موت کے بعد ایک نئے شعور میں زندہ ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا کہ “بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے” دراصل ایک نہایت عارفانہ کیفیت کو ظاہر کرتا ہے – گویا اصلِ حقیقت وہ ہے جو لفظوں سے باہر ہے، جسے کہا نہیں جا سکتا، صرف جیا جا سکتا ہے۔
یہ شعر نہ صرف عرفانِ ذات بلکہ عرفانِ حقیقت کی گواہی دیتا ہے۔ عماد اظہر کی شاعری میں یہ رجحان نمایاں ہے کہ وہ روحانی خاموشی، درونی سفر، اور باطنی علم کو بیان کرنے کے لیے ایسے پُراسرار اور اثر خیز استعارے استعمال کرتے ہیں، جو قاری کو اندر تک ہلا دیتے ہیں۔ ان کے کلام میں دنیا سے فرار نہیں، بلکہ اس دنیا کی تہہ میں چھپی سچائیوں کو دریافت کرنے کی تڑپ ہے۔
یہ شعر اُن لمحوں کی یادگار ہے جب انسان زندگی کے شور سے نکل کر اپنی خاموشی میں ڈوبتا ہے، اور وہاں اُسے ایسے لوگ ملتے ہیں جو سب جان چکے ہوتے ہیں، لیکن خاموش ہوتے ہیں — کیونکہ اصل علم خاموشی میں پنہاں ہے، اور اصل فہم وہ ہے جسے کہا نہ جا سکے۔ عماد اظہر کی یہی خاموشی اسے ایک بلند تر روحانی شاعر کے درجے پر فائز کرتی ہے۔
یہ شعر:
“دشت اس خواب کی تعبیر ہے
جس کو ہم تم
دیکھتے دیکھتے منظر سے نکل جاتے ہیں”
ایک گہرے، کرب انگیز اور خوابیدہ احساس کا آئینہ دار ہے۔ شاعر یہاں “دشت” کو ایک ایسی تعبیر کے طور پر پیش کرتا ہے جو کسی مشترکہ خواب کا انجام ہے، ایک ایسا خواب جو شاید حقیقت بننے سے پہلے ہی بکھر جاتا ہے۔ خواب اور دشت، دونوں استعارے یہاں نہایت علامتی انداز میں استعمال ہوئے ہیں: خواب امید، قربت یا کسی روحانی یا جذباتی تعلق کی علامت ہے، جبکہ دشت اس کی تنہائی، ویرانی اور بچھڑ جانے کی صورت ہے۔
“ہم تم منظر سے نکل جاتے ہیں” ایک گمشدگی کی کیفیت ہے، جہاں صرف خواب باقی رہ جاتا ہے اور خواب بھی ایسا جس کی تعبیر میں ویرانی ہے۔ گویا حقیقت وہی دشت ہے، اور خواب بس ایک لمحاتی نظر کا دھوکہ۔ عماد اظہر اس شعر میں صرف محبت یا تعلق کے زوال کی بات نہیں کر رہے بلکہ وہ اس دنیاوی منظرنامے کے پیچھے چھپی اُس سچائی کو ظاہر کرتے ہیں جس میں سب کچھ عارضی ہے — چاہے وہ خواب ہو یا خواب دیکھنے والے۔
یہ شعر ان کے مجموعے “ساتواں دن” کے اس مخصوص رجحان کی نمائندگی کرتا ہے جہاں روحانیت، فراق، اور حقیقت کے سنگم پر انسانی جذبات کو پرکھا جاتا ہے۔ یہ دشت، صرف ایک ویران زمین نہیں، بلکہ وہ مقام ہے جہاں حقیقت خوابوں کو نگل جاتی ہے — اور شاعر اس لمحے کو اس طرح بیان کرتا ہے جیسے وہ خود بھی خواب سے نکل کر ایک بے آواز دشت میں جا پہنچا ہو۔
اس کامیاب روحانی سفر پر میں انہیں بہت مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔
راشدہ ماہین ملک
25 مئی 2025
دو پہر
اسلام آباد