رحمان حفیظ صاحب
لطیف کیفیات کی شاعری
جذبات اور لطیف باطنی کیفیات کو شعر کے قالب میں ڈھالنا جس ہنر مندی کا تقاضا کرتا ہے وہ کیا مشکل سی بات ہے اور اس پر مستزاد اسے شاعری بنانا تو اس سے کہیں بڑا چیلنج ہے جو ناممکن العقل سا لگتا ہے۔ ہم اکثر گلہ گزار رہتے ہیں کہ اچھی شاعری نہیں ہو رہی۔ اس کے پیچھے کئی عناصر کارفرما ہوں گے لیکن ایک چیز طے ہے کہ ہر عہد کی تخلیقی رَو دھیرے دھیرے جمورپرستی کا شکار ہو جایاکرتی ہے۔ الفاظ یونہی کلیشے نہیں بن جاتے۔ ان کے پیچھے سالوں صدیوں کا لگے بندھے اصولوں کا جبر کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ مخصوص انداز، لب و لہجے، زبان یا فکر کے اعتبار سے سرِ ُمو انحراف بھی باغیانہ روش میں شمار کر کے منفی قرار دے دیا جاتاہے لیکن تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ عظیم شعرا ا نہی لوگوں میں پائے گئے جنہوں نے عامیانہ روش سے اجتناب کیا اور بغاوت کا طعنہ سہنے کی جرات کی۔یہ الگ بات کہ ہر تجربہ بذاتِ خود کامیابی کی ضمانت فراہم نہیں کرتا لیکن امکانات کی نئی راہیں ضرور دکھا جاتاہے۔
تجربے کے بارے میں ایک اور شدید غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ یہ ہمیشہ توڑ پھوڑ یا مکمل انحراف سے جنم لیتا ہے۔ ایسا ہوناممکن توہے مگر یہ کوئی اصول نہیں۔ یہ بات چلتے پانی کی مثال سے سمجھی سمجھائی جا سکتی ہے۔ بہتا ہوا پانی جونہی کہیں رک کر جوہڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو وہ متعفن ہوجاتا ہے۔ اس مسلے کو حل کرنے کے لئے تالاب کو ہی ختم کر دینا ضرور ی نہیں، یہی مقصد پانی کے بہاؤ کو کسی طور بحال کر کے بھی کے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن عموماً یہ خیال ہر کسی کو نہیں آپاتا۔
اظہار کے ضمن میں لسانی ضروریات کے مسائل بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ اگرچہ الفاظ و علامات ہی وہ ظروف ہیں جن میں مئے اظہار پیش کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے شعر ا عام طور پر پہلے سے وضع کردہ سانچوں پر ہی تکیہ کرتے آئے ہیں اور اس کے لیے عام طور جو دلیل پیش کی جاتی ہے، غالب نے اس کا تذکرہ یوں کیا ہے :
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
عماد اظہرؔنے اس چیلنج کو قبول کیا ہے اور اپنے افکار سے نا مناسبت رکھنے والی علامات سے نہ صرف بچنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ اظہار کے بلند معیار تک رسائی بھی حاصل کی ہے۔ وہ ایک ایسا شاعر ہے جس نے نظم و غزل میں جمود کو بہاؤ کی تکنیک سے توڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مجھے غیر محسوس طریقے سے ایک لطیف انقلاب لانے کا داعی لگا۔اس کے لئے اس نے اپنی وسیع المطالعی اور بے پناہ ریاضت کی مدد سے اردو شاعری کی سات سو سالہ تاریخ سے تخلیقی عطر کشید کر کے اسے اپنے کلام کی پہچان بنایا ہے اور اس کا یہ عمل مجھے اکیسویں صدی کے اس لمحے میں بالکل منفرد، نیا اور نویکلا محسوس ہو رہا ہے۔
بعض لوگوں کو میری یہ بات عجیب لگے گی کہ میں انقلاب کا تذکرہ روایت کے ساتھ ملاکر کروں کیونکہ نئے مغربی علوم کے زیر اثر لوگوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہمیں ترقی یافتہ اور جدید کہلانے کے لئے اپنے ماضی سے مکمل قطع تعلق کرناہے۔ اپنے تہذیبی ورثے سے روگردانی اور اپنے روایات کی تضحیک و تکذیب کرنی ہے حالانکہ یہ مغرب کا مطالبہ تو ہو سکتا ہے مگر جدید علوم کا نہیں۔علوم تو شراکت اور مکالمت چاہتے ہیں خیر وجوہات جو بھی ہوں، اس ضمن میں ہمارا ادبی سرمایہ بے حد نظر اندازی کا شکار ہوا ہے۔ ایک تو جدید تنقیدی نظریات کے زیر اثر ایک نوع کے احساسِ کمتری نے جنم لیا ہے اور دوسری جانب مقامی زبانیں شدید بے اعتنائی کا شکار ہوئی ہیں ۔ بہ حیثیت مجموعی ہم لوگ اپنی کلاسیکس کے سلسلے میں قومی بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ بیگانہ روی ہمیں مسلسل بے سمت کئے جا رہی ہے۔
نظریاتی اعتبارسے ان ممکنہ اعتراضات کا ایک اور پہلو سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عماد اظہر کا تغزل کچھ غیر مادی اور ماورائی سا ہے چنانچہ اسے غیر فطری، اور نا قابلِ تفہیم قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر رعایت بھی کی جائے تو ایسے کلام کو زیادہ سے زیادہ تصوف کی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے اور تصوف کو فی زمانہ انتہائی غیریت کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، کم از کم شاعری میں تو اکثریت کو ا س کی جگہ بنانا عجیب لگنے لگا ہے۔
آئیے پہلے تصوف والے معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ روایت سے ہمارے رابطے کی کڑی کٹ جانے کے باعث نئی نسل کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ تاریخی طور پر تصوف نے ہی سب سے پہلے اردو ادب کی آبیاری کی ہے اور یہ کام آج سے کم از کم سات سو سال پہلے شروع ہوا جب امیر خسرو نے اس بھاشا کو اپنا خون جگر دیا۔وہ اردو شاعری کے میکے یعنی فارس کے ادب بھی صوفیانہ فکر کے عروج کا زمانہ تھا۔ عطار، رومی،، جامی، عراقی، سعدی جیسے صوفی آگے پیچھے کے کچھ فرق کے ساتھ فارسی کے مشاہیر شعرا میں شامل تھے۔ چنانچہ اس وقت کے حلقہء شعر سے کئی اندرونی مخالفتوں کے باوجود امیر خسرو کے لئے طوطئی ہند کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ اس کے بعد تو ہماری کلاسیکل شاعری مسلسل تصوف کے مختلف مظاہر سے فیض یاب ہوتی آ رہی ہے اور آج تک کسی نہ کسی طرح یہ سلسلہ جاری ہے۔
یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ تصوف یا روحانیت محض اسلامی یا ہند اسلامی روایت نہیں ہے۔یہاں صوفیا کی آمد سے پہلے بھی کئی مقا می عقائد کے زیرِاثر تصوف سے ملتے جلتے سلاسل موجود تھے جو مسلمان صوفیا کی آمد کے بعد اس زیادہ طاقتور اور مرکزی لہر کے سامنے اپنا وجود اس طرح سے قائم نہیں رکھ پائے گویا ہم یہ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ تصوف یا رُوحانیت ملتی جلتی صورتوں میں عالمی انسانی ورثہ ہے اور یہ باشک و شبہ ابتدا سے ہی اردو کے خون میں بھی شامل رہا ہے۔
اب تغزل کی جانب آتے ہیں۔
تغزل ہے کیا؟
یہ پروفیسر انور جمال کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے :
‘‘تغزل کی شناخت ایک لحاظ سے مشکل ہے۔ اسلوبِ بیاں، لب و لہجہ، پیرایۂ غزل، خیال انگیزی، غنائی کیفیت، بلاغت کا حسن اورتنظیمی جمال وہ عناصر ہیں جو غزل کو رعنائی دیتے ہیں۔ ان کا مجموعی تأثر ‘‘تغزل’’ کہلاتا ہے۔ تغزل خالصتاً شعر کا درونی حسن ہے اور اس کا تعلق قاری کے ذوق اور جمال آشنا طبیعت سے ہے، یعنی یہ تمام عناصرمل کر قاری کو جمالیاتی آسودگی دیتے ہیں۔’’
(پروفیسرانورجمال کی تصنیف ‘‘ادبی اصطلاحات’’مطبوعہ‘‘نیشنل بُک فاؤنڈیشن’’، اشاعتِ چہارم مارچ، 2017ء، صفحہ نمبر 79 اور 80 سے انتخاب)
اس تعریف کے مطابق آپ عماد اظہر کے کلام کا تفصیلی جائزہ لے دیکھئے۔ عہد موجود کے کسی اچھے غزل گو کے کلام سے اس کا موازنہ کر لیجئے آپ کو کہیں یہ اندازہ نہیں ہو گا کہ عماد کے ہاں تغزل عنقا ہے۔ اس نے غزل کے ہر ممکنہ معیار پر رہ کر شعر کہے ہیں اور عمومی طور پر کہیں کوئی رعایت نہیں لی۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ عماد اظہر کی غزل میں پایا جانے والا محبوب محض غمزہ و ادا کا پیکر نہیں ہے۔ وہ محض دیکھنے کی شے نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس میں اور اسے اپنے آپ میں موجود محسوس کرنے کی ہستی ہے۔اس کا موازنہ اس محبوب سے نہیں کیا جا سکتاجو لاکھوں کی تلاش کے بعد ایک کیانتخاب کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ عماد کی غزل کا محبوب محبت کی انتہا کے لئے ہے کہ حیرت کی انتہا کے بعد یہی مرحلہ آتا ہے۔
لگے ہاتھوں یہ بات بھی ہو جائے کہ تصوف کو خالص مذہبی تصورات کے ساتھ نتھی کرکے کسی بھی شاعر کو مسترد کرنا انہی لوگوں کا وتیرہ ہو سکتا ہے جو عالمی ادب اور تصوف کی تاریخ اور روایات سے بے خبر ہیں۔ یہ بات کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حیرت اور ماورائیت ہر دور کی شاعری کی ضرورت رہے ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کے آثارِقدیمہ سے لے کر آج کے جدید تجریدی آرٹ تک علما، شعرا، دانشور، مصور، اور دیگر فنکاروں کی حقیقت ِمطلق کی تلاش کے گواہ ہیں۔ روحانیت کا یہ سفر ہمیشہ سے جاری و ساری رہا ہے لہٰذا اردو بھی اپنی خام حالت میں روحانیت یا تصوف کی اس ہندی روایت سے مستفید ہوئی تاکہ ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں مد د مل سکے جو ہر دور میں دانشوروں اور تخلیق کاروں کے ذہنوں میں پرورش پاتے رہے ہیں۔
پوری دنیامیں روحانیت یا تصوف کے بارے میں غلط فہمیاں اب کم ہو رہی ہیں۔ یورپی اقوام میں انسان دوستی کے نظریے کا فروغ ایک خوشگوار حقیقت تھی لیکن سوشلزم کے عروج کے بعد ان کے ہاں بھی اقوام کی عصبیت دیکھنے کو ملی اور اب سوشلزم کی ناکامی کے بعد تو تصوف کی انسان دوستی اور عالمگیریت کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے جیسا کہ عنایت خان نے بیسویں صدی کے یورپ میں اندازہ لگایا تھا ۔ مغرب میں صوفیانہ تحریک بتدریج ارتقاء پذیر رہی ہے۔ پروفیسر مارثیہ ہرمینسن (لوئیولا یونیورسٹی، شکاگو، امریکہ) کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ 1990ء سے امریکہ میں صوفی ازم مکمل اسلامی شکل میں ڈھلتا جا رہا ہے
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی عظیم شاعر کے کام کا با لاستعیاب مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے خیالات و افکار آخر تک آتے آتے تغیر و تبدل کے باعث ایک گونہ تحدید و قناعت کی غمازی کرنے لگتے ہیں اور وہ خودصبر و بے نیازی کا ایک پیامبر لگنے لگتا ہے جو در اصل صوفیا کی ایک داخلی کیفیت ہے۔ عماد اظہرؔکے شعری مقام کے تعین سے قطع نظر استغنا کی یہ صورت بھی ان کے ہاں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حقیقی تصوف ہر گز رہبانیت یا ترک دنیا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مخلوقِ خدا کے وسیلے سے ہی حقیقت مطلق تک رسائی کا علم بردار ہے۔خلق خدا کی مساوات اور ان سے سالکین کی محبت کاتصور تصوف کا ایک اہم جزوہے ۔اس لحاظ سے تصوف معاشرے کے اجتماعی گناہوں کے خلاف اٹھنے والی ایک باطنی آواز ہے اور اس آواز پر لبیک کہنے والا ہی صوفی یا صاحبِ فقر ہوتاہے۔ گوعماد اظہر کے ہاں بیرون ذات کا بیان زیادہ وضاحت کے ساتھ نہیں آتا لیکن وہ مخلوقِ خدا سے اپنے رابطے کو نظر انداز کرتا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اپنی عملی زندگی میں بھی وہ خدا کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کی محبت کا نقیب ہے جو کسی طبقے، نسل یا عقیدے کے لئے مخصوص نہیں۔ اس منصب پر رہتے ہوئے وہ انسان اور انسانیت کا بھی بڑا ہمدرد ہے اور انہی کے ساتھ اس معاشرے کا حصہ بن کر رہتا ہے۔ ان جیسا کھاتا پیتا، ویسا ہی پہنتا اور ان کے دکھ درد میں شریک رہتا ہے۔ اس کا یہ پہلو اس کی نظم ‘‘نصاب’’ کی ان سطور میں دیکھئے:
نظامِ فقر
جو صدیوں سے ایک جیسا تھا
اسے بدلنا ہے
لیکن نصاب کیا ہو گا؟
سوال کر کے
سوالی گلاب رکھتا ہے
خدا کے اذن سے درویش بات کرتے ہیں
نصاب!!
خدمتِ خلقِ خدا!!
سچ تو یہ ہے کہ خدا پر کسی کی اجا رہ نہیں، وہ تو مقصود ِ خاص ہے، اس کائنات کا مرکز و محور ہے، منصف ہے، مہر بان ہے اور سب کو ہی بوساطت دعا و مناجات دستیاب و میسر ہے۔ البتہ اپنے مقصود کے ساتھ صوفیا کا تعلق غیر معمولی ہے۔ تعلق کی یہ طاقت صوفیا کو داخلی طور پر اتنا مضبوط کر دیتی ہے کہ وہ دنیاوی خداؤں سے کبھی خائف نہیں ہوتے اور تیغ و تفنگ کے سامنے بھی حق کی بات کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح تصوف کو زندگی سے جدا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا اسی طرح متصوفانہ شاعری کو بھی ادب کی مرکزی رو سے الگ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے۔ عماد اظہرؔ سامنے کی مثال ہے جو ا رفع اور ما بعدالطبیعیاتی موضوعات کے ساتھ ساتھ ان ذیلی معاملات و مسائل کے حوالے سے فرد او ر معاشرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے تاہم یہ ضرور کہا جا سکتاہے کہ عماد کی شاعری وہیں عروج پر ہے جہاں اس کی فکر بڑے سوالات اور ان کے ممکنہ جوابات سے وابستہ ہے۔
عماد اظہرؔ کے تفکر کے آغاز اس لمحے سے ہوتا ہے جب زندگی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا:
یہ گونج اور سمندر پہ جاگتی آنکھیں
شروعِ ذات سے پہلے کا ایک منظر ہے
پھر وقت کا ایک وسیع سمندر ہے جس میں سفر کے تجربات کا ایک بڑ امرقع ہے۔ اس سفر میں متخیّلہ کی رسائی کئی کائناتوں تک رہی ہے ۔ اس سفر کا ایک پڑاؤ دیکھئے:
کہو تو سات دنوں کا قیام کر لوں گا
یہ کائنات مجھے راستے میں پڑتی ہے
یہاں کے مکین شاید بھلا چکے ہیں کہ زمین پر ان کا قیام مستقل نہیں ہے اور اصل معامات تو فنا کے بعد شروع ہوتے البتہ شاعر کی نگاہ ِ دُور بین ضرور انہیں متوجہ کرتی ہے۔
مجھ کو دفنائے ہوئے لوگ ملا کرتے ہیں
جو بتاتے ہیں بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے
نفسانی خواہشات کی حقیقت کو درج ذیل شعر سے بھی آشکار ہوتا دیکھئے اور داد دیجئے:
دشت اس خواب کی تعبیر ہے جس کو ہم تم
دیکھتے دیکھتے منظر سے نکل جاتے ہیں
اس نہ ٹلنے والی فنا کو کام میں لانے کے لئے شاعر نے عشق تجویز کیا ہے۔ عشق جس میں فنا ہونا در اصل ابدی حیات پا جانے کے مترادف ہے۔ یہ منظر ایک نظم میں یوں کھلتا ہے:
ذرا سی دیر کی چپ
شور سے زیادہ تھی۔۔۔
پھر ایک ساعتِ گریہ نے حوصلہ بخشا۔۔۔
جناب!!!!
کیسے کمائیں خدا کی نعمت کو۔۔۔؟؟؟
وہ چشمِ عصر اُٹھی
اعتبار بڑھنے لگا۔۔۔
سنو!!!
زیادہ وضاحت سے کچھ نہیں حاصل
بس اتنا یاد رکھو راہِ عشق میں
سب کو۔۔۔
گزرنا پڑتا ہے اپنی ہی رائیگانی سے
اور بعد ازیں شاعر کی نظر وقت کے دوسرے کنارے تک بھی پہنچتی ہے اس کا ذکر کسی اور موقعے کے لئے اٹھا رکھتے ہیں لیکن مذکورہ بالا ان دو لمحات کے درمیان ہونے والی تمام سرگرمی جسے عرفِ عام میں زندگی کہتے ہیں عماد کے کلام کا ایک اہم جزو ہے۔۔ عماد اظہرؔ جیون کی اس وادیِ پُر خار سے سرسری نہیں گزرا۔ اس نے ایک ایک لمحے کو عمر کی طرح بسر کیا ہے اور اس کے رس کو اپنے تخلیقی تجربے کا حصہ بنایا ہے۔
آئیے اب بات کا رُخ فکر سے فن کی جانب موڑتے ہیں۔ سب آگاہ ہیں کہ شاعری جذبات و کیفیات کو لفظوں کا دلکش رُوپ دینے کا نام ہے۔ نازک اور لطیف باطنی کیفیات کو اظہار کے قالب میں ڈھالنا جس ہنر مندی کا تقاضا کرتا ہے وہ وہ آسان نہیں اور اس پرمستزاد اسے خالص شاعری بنانا تو اس سے کہیں بڑا چیلنج ہے جو ناممکن العقل سا لگتا ہے۔ یہاں ایک جانب لسانی حدو و مسائل بھی آڑے آتے ہیں تو دوسری جانب ابلاغ اور عوام کے قبول و رد کے معاملات بھی سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ الفاظ و علامات ہی وہ ظروف ہیں جن میں اظہار کی مے کو پیش کیاجاتا ہے لیکن اس کے لئے شعر اعام طور پر پہلے سے وضع کردہ سانچوں پر ہی تکیہ کرتے آئے ہیں اور اس کے لئے جو دلیل پیش کی جاتی ہے، غالب نے اس کا تذکرہ یوں کیا ہے :
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
عماد اظہرؔنے اس چیلنج کو قبول کیا ہے اور اپنے افکار سے نا مناسبت رکھنے والی علامات سے نہ صرف بچنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ اظہار کے بلند معیار تک رسائی بھی حاصل کی ہے ۔ اس کا کلام پڑھ کر لگتا ہے جیسے الفاظ اس کے لئے موم ہو کر اس کی من چاہی صورتوں میں ڈھل جاتے ہوں ۔
عماد اظہرؔ یوں تو علائم تراشی ، تجسیم ، تلمیح اور کئی دیگر تمام صنائع و بدائع میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے لیکن اظہار کے میدان میں اس کا سب سے کارگر ہتھیار تلمیح ہے۔ تلمیح بذاتِ خود ایک کہانی کی امیج ہوتی ہے جس میں عماد اظہر مزید رنگ بھر کر اسے عہدِ حاضر میں شوق سے دیکھی جانے والی ایک پینٹنگ بنا دیتاہے۔ ایک ایسی پینٹنگ جس میں کہانی بھی ہوتی ہے، شاعری بھی اور دعوتِ فکر کے ساتھ ضیافتِ فلسفہ بھی۔ کہیں کہیں وہ تلمیح فی الواقع استعمال نہیں کرتا لیکن اس جانب محض اشارہ کر دیتا ہے اور شعر کی جھولی کہانی سے بھر جاتی ہے۔
میں یہ دیکھ کر حیران ہوتاہوں کہ کیسے عماد اظہرؔ ماضی کے اس بظاہر بوسیدہ اور از کار رفتہ سرمائے کو نئی زندگی دیتا جا رہا ہے۔ ہمارا عہد جن نشانیوں اور علامتوں کو فراموش کر دینے پر تلا ہے، عماد اظہرؔ انہی میں نئی چمک دمک لا کر نگاہوں کو خیرہ کرتا چلا جارہا ہے۔ بازآفرینی کا یہ عمل1970ء کی دہائی میں سامنے والی شعری تحریک سے بہر حال قدرے ہٹ کے ہے اگرچہ اُس لہرنے بھی ہمارے قومی و ملی تشخص کی بازیافت کا بیڑا اٹھایا تھا ۔ ممکن ہے کہ عماد اظہر اپنی تکنیک میں اُن شعراسے زیادہ مختلف نہ ہو لیکن طریقِ کار اور ردِعمل میں بالکل جداگانہ انداز رکھتاہے کیونکہ اس کا شعری سفر تصوف کے زیر اثر چلتا ہے اور تصوف میں فقرا کا بنیادی ارتکاز آسائش میں قناعت اور محبت میں سبقت کاہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عماد اظہرؔ محض ماضی پرست نہیں ہے بلکہ وہ نادیدہ جہانوں اور شمار ناشدہ زمانوں کی خبر لانے کی کاوش میں بھی مگن ہے۔ وہ ایک ایساشاعر ہے جو حواسِ خمسہ کی زقند سے بھی آگے جا کر عناصر کو محسوس کرنے اور ان کی تصدیق و تعبیر کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ایسا لگتاہے جیسے اڑن کھٹولے اس کی دسترس میں ہوں، جیسے اس کی اور آنکھیں کئی زمانوں میں بھی کھلتی ہوں ۔
میں جاگتے ہوئے اک خواب میں اتر آیا
پھر اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی مجھ میں
اس بھید بھری حیات کی حقیقت عمادؔ پر پوری طرح آشکار ہے اور وہ اس کے سربستہ راز قاری پر کھلوتا چلا جاتا ہے۔ ُپراسراریت کی ان لہروں کو عمادؔ کے کلام میں جا بجا محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کیا گئی دشت سے باہر کوئی آوازِ جرس
دیکھتے دیکھتے ٹیلوں پہ ہوا چلنے لگی
کہیں وہ ‘پس چہ باید کرد’ کا سبق دیتا ہے تو کہیں آنے والے دنوں کے استقبالیہ گیت لکھ کر بشارتیں بانٹتا پھرتا ہے۔ ایسی شاعری کوواقعی ‘‘ جزویست از پیغمبری’’کہا جا سکتا ہے لیکن عماد اظہرؔ ان عوامل سے قطع نظر، اپنے منصب سے بے خبر، اپنی ایک ہی دھن میں یہ کہتا ہوا رواں دواں ہے کہ
جانے کس سمت لیے پھرتا فقیری کا غرور
صاحبو!شکرہے،ہم خاک ہوئے،پاک ہوئے
فکر و فن کی یہی پاکیزگی اس کا افتخار ہے اور عہدِ بے عملی میں اس کے اپنے کردار کی گواہی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔
عمادؔ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ تمام تر ُپراسراریت اور رمزیت کے باوصف اس کا کلام بلیغ ہے۔ اس کی شاعری کسی بھی تشریح اور وضاحت سے بالاتر ہے اور دلوں میں اترتی اور انہیں متاثر کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ شاعری ایک الگ دنیائے احساس و فکر ہے جس میں ہزاروں زبانیں اور لاکھوں لہجے ضم ہو جاتے ہیں۔ یہ رُوح کی زبان ہے اور اس کا تن بدن یہ کومل الفاظ ہیں جوآپ کی نظروں سے گزر رہے ہیں۔ ان کا لطف لیجئے اور ان سے استفادہ بھی کیجئے۔
رحمان حفیظ