طارق نعیم صاحب

عماد اظہر کا ساتواں دن
عماد اظہر میرا پسندیدہ شاعر ہے اس لیے کہ وہ مجھے اپنے قبیلے کا شاعر لگتا ہے۔وہ زندگی اور زمان و مکان کے اندر چیزوں کو جس دردمندی سے دیکھتا ہے شاید ہی کوئی اور دیکھتا ہو گا۔ہر شعر میں ایک نئی کیفیت آج کی شاعری میں کون بنا پاتا ہو گا۔میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ شاعر کے درد_دل ہی سے بڑی شاعری جنم لیتی ہے اور عماد اظہر کے ہاں ایسا ہوتا نظر بھی آ رہا ہے۔میرے اس شاعر نے اپنے لیے الگ راستہ بنایا ہے جو اس کا اسلوب بھی بن گیا ہے اس کے اندر کی پراسراریت اور صوفیانہ امیجری قریبی تعلق رکھتے ہوئے بھی کم ہی اپنا انکشاف کرتی ہے۔میں حیران ہوں عماد اظہر ایسے زندہ شعر کس روانی اور گہرائی کے ساتھ کہہ لیتا ہے میں اسے الگ انداز کا شاعر تسلیم کرنے کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح آمادہ کر چکا ہوں۔

یہ شاعری حیرت ہے اور اس کا باب_حیرت اندر کی طرف کھلتا ہے اس میں داخل ہونے کے لیے بھی صاحب_حیرت کی اجازت درکار ہوتی ہے۔اس کا شعری مجموعہ “ساتواں دن” مجھے دو دن پہلے ملا ہے پڑھ کر سرشاری کی جس کیفیت سے گزر رہا ہوں وہ صرف محسوس کی جا سکتی ہے پھر اس مجموعے کی گواہیاں اتنی معتبر ہیں کہ میں زیادہ لکھ بھی نہیں پا رہا۔ان گواہیوں میں ڈاکٹر وحید احمد، محمد حمید شاہد، واجد امیر، رحمان حفیظ ، قاسم یعقوب اور حیدر فاروق شامل ہیں۔اپنی غزلوں اور نظموں میں رنگوں سے کلام کرنے والا میرا یہ شاعر فقیری مسافرت میں ہے۔کہیں ذرا دیر کو رکتا ہے تو میں اس کے کچھ شعر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
مجھ سے پہلے بھی کئی بار مرا ذکر ہوا
مجھ سے پہلے بھی گزارا ہے زمانہ میں نے

آیت_عصر ذرا دیکھ قدیمی آنکھیں
میں کسی وقت میں مجذوب ہوا کرتا تھا

وقت اس خواب کی تعبیر ہے جس کو ہم تم
دیکھتے دیکھتے منظر سے نکل جاتے ہیں

عین اس وقت ہوا مجھ سے کوئی کار_خدا
جس گھڑی میں تری تصویر بنانے لگا تھا

زمیں پہ اس کا مرے ساتھ ساتواں دن ہے
وہ اس سے پہلے کوئی فرد_آسمانی تھا

مجھ کو دفنائے ہوئے لوگ ملا کرتے ہیں
جو بتاتے ہیں بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے

یہ گونج اور سمندر پہ جاگتی آنکھیں
شروع_ذات سے پہلے کا ایک منظر ہے

میں لگاتا ہوں زمانے میں زمانوں کی گرہ
مجھ کو معلوم ہے آواز کدھر جاتی ہے

خواب سے خواب کی تعبیر کہاں جاتی ہے
عکس تو بنتا ہے تصویر کہاں جاتی ہے

کوزہ_خواب_گزشتہ کو دوبارہ سے بھرا
میں نے مٹی کی جگہ دشت کو دریا سے بھرا

حلقہ_آب سے تصویر اٹھائی میں نے
دوسری شکل بھی اپنی ہی بنائی میں نے

میں میسر تھا اسے اور میسر کے لیے
اس زمانے میں کوئی خاص جگہ ہے بھی نہیں

میں جاگتے ہوئے اک خواب میں اتر آیا
پھر اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی مجھ میں

پھر ایک روز نکالا گیا ہمیں تم سے
کئی زمانوں سے ہم ایک دوسرے میں تھے

جھولتے رہتے ہیں تعویذ سر_شاخ_بدن
یہ مسافر کو بلانے کے لیے ہوتے ہیں

ہم ایک ساتھ فقیروں کی حاضری میں تھے
یہ اسم میرے زمانے میں جسم ہوتا تھا

یہ بات کس کو بتاؤں کہ ایک دن میں نے
کسی طرف کو نکلنا ہے پھر نہیں ملنا

Light
Dark