عدنان بشیر صاحب
عماد اظہر اور “ساتواں دن”
رواں صدی کے پہلے پہلے سال تھے جب ہم چیچہ وطنی میں روبرو ہوئے اس سے قبل بورے والا مشاعرے میں عماد اظہر کو سننے کا موقع تو ملا لیکن اس سے پہلے کہ ملاقات ہو پاتی وہ اپنے یہ اشعار سنا کے جا چکے تھے۔
جو تو یہاں ہے تو پھر یہ جہاں مناسب ہے
زمین ٹھیک ہے اور آسماں مناسب ہے
مجھے تو مانگ دعاؤں کی اس بلندی سے
جہاں سے میں بھی کہوں ہاں یہاں مناسب ہے
ریاض مجید صاحب کی صدارت میں محمود احمد محمود کی کتاب ” تم بھی خواب دیکھو گے” کی تقریبِ رونمائی تھی اور فیصل آباد سے میرے پہلے ادبی دوست احمد سلیم رفی مجھے ثنا اللہ ظہیر ،عماد اظہر، علی زریون اور اشفاق بابر سے متعارف کروا رہے تھے جبکہ عارف حسین عارف سے پہلے ہی تعارف ہو چکا تھا کہ جب منیر رزمی صاحب کے حکم پر ایس۔ای کالج بہاول پور کے بین الکلیاتی مشاعرے میں چیچہ وطنی کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے احمد سلیم رفی اور عارف حسین عارف سے ملاقات ہوئی ۔
؎ ہمیں تو گاؤں پلٹنا ہے شام سے پہلے
تمھارا کیا ہے تمھاری تو شہر داری ہے
؎ بلندیوں پہ ہمیشہ ہمیں نہیں رہنا
ہم آفتاب ہیں اور شام کی اذاں تک ہیں (احمد سلیم رفی)
ایس۔ای کالج کے اس مشاعرے میں رفی کے ان اشعار نے ایسا سماں باندھا کہ لاہور سے آئے ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی کی نمائندگی کرنے والے ایک شاعر صاحب نے اپنے شعری مجموعے کے ٹائٹل پہ ان اشعار کو اپنے نام سے شامل کرنے کو سعادت جانا۔ تو اب ہم سب چیچہ وطنی میں اس جسارت پہ محظوظ ہو رہے تھے ۔ چیچہ وطنی کا یہ مشاعرہ ادبی حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہوا کہ اس کے بعد عماد اظہر اور علی زریون فیصل ہاشمی کے ساتھ کبیر والہ کی طرف محوِ پرواز ہو ئے جس کے بعد وہاڑی، کسووال، بورے والا، اوکاڑہ،دیپال پور اور اطراف کے بہت سے شہروں میں ان شاعروں نے وہ وہ رنگ جمایا کہ ہم سے خشک بھی تر ہو گئے۔اور دیپال پور میں ایک مشاعرہ تھا جس کے بعد صدیوں پرانے شہر کی قدیم فصیلوں اور چھوٹی اینٹوں سے بنی گلیوں ، بازاروں ، دیواروں پہ ہمکتی بیلوں اور جامعہ مسجد کی چھوٹی اینٹوں والی قدیم عمارت کے قریب کہیں عماد اظہر کے گھر پہ دو شاعر آپس میں الجھ رہے تھے۔ دو نہیں ایک ، ہم سب کے ہر دل عزیز علی زریون اپنے دوست عماد اظہر سے شکوہ کناں تھے کہ وہ ۔۔۔
ظہورِ ذات تھا اور رنگ دائرے میں تھے
درونِ ذات ہم اپنے ہی تجربے میں تھے
سمٹ چکی تھی دریچوں میں رات کی خوشبو
اور ایک صبح کے آثار ملگجے میں تھے
۔۔۔۔
اک کسوٹی پہ رکھے دستِ عزازیل مجھے
غار تک آیا سناتے ہوئے انجیل مجھے
مرے درویش ترے لمس کی ہلکی سی مہک
مرحلہ وار کیے جاتی ہے تبدیل مجھے
عماد اظہر ایسے اشعار کیوں کہتے ہیں ۔ ایسے اشعار کہنا ان کا معاملہ نہیں ہے ۔انھیں محبت کے شعر کہنے چاہئیں یہ جہاں مناسب ہے والی غزل کی طرح۔ عماد اظہر یہ کہہ کے خاموش ہو چکے تھے کہ جس تجربے سے وہ گزرے ہیں اس کو بیان کرنا ان کا معاملہ کیسے نہیں ہے؟محمد ندیم بھابھہ، افضل خان، احمد کامران، کاشف مجید اور فیصل ہاشمی ان دونوں میں حائل ہوتی خلش کو دور کرنے کے لیے دلائل دے رہے تھے اور میں بالکل خاموش دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ یا خدا یہ دستِ عزازیل ہمیں کس کسوٹی پہ پرکھنے لگ گیا ہے۔ ندیم بھابھہ کہہ رہے تھے کہ یار میں تو یہ کہتا ہوں آج کل جو شاعری سامنے آ رہی ہے اس کا حساب کچھ یوں بن رہا ہے کہ پرچیاں ڈال کے جس شاعر کے نام پہ مرضی جو شعر نکال لو سب ایک ہی رنگ کے شعر کہنے لگ گئے ہیں۔ ۔۔یہ دن ادریس بابر کے ان دوشعروں کی تصویر تھاکہ
تمام دوست الاؤ کے گرد جمع تھے اور
ہر ایک اپنی کہانی سنانے والا تھا
کہانی جس میں یہ دنیا نئی تھی اچھی تھی
اور اس پہ وقت برا وقت آنے والا تھا
پھر یہ دوست شاید ایک جگہ پہ ایسے نہ اکٹھے ہو سکے اور اب ان باتوں کو دو دہائیوں پوری ہورہی ہیں ۔میرے سامنے ایک کتاب ہے عماد اظہر کی ” ساتواں دن” اور ایک کتاب ہے فیصل ہاشمی کی ” کارگاہ”۔۔۔
” ساتواں دن ” کے ایک ایک شعر سے جھلکنے والا معاملہ پو پھٹے کے اس ملگجے کی دھند میں ڈوبا ہوا ہے جو کوئے کوزہ گراں کا رنگ ہے۔عماد اظہر کی شاعری میں تہجد کا وقت اول تا آخر پھیلا ہوا ہے۔ سمے کے اس بندھن میں بندھنے والے نے کشف و کرامات کے بجائے ذکر کے بدلے میں ذکر کی نعمت کو چن کے آمین کہہ دیا ہے اور جس نے کشف و کرامات کی طرف بھی ہاتھ بڑھایا اب مشاعروں میں لوگ اس کے نام پہ یوں جھومتے ہیں کہ مشاعرہ گاہ کی چھت اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔عماد اظہر کی چنی ہوئی راہ ان کی غزلوں کے ان چنیدہ شعروں میں ظہور کرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔
؎ میں تجھے مسندِ درویش نہیں بخشوں گا
چاہے تو اڑتا پھرے چاہے سمندر میں چلے
؎ جانے کس سمت لیے پھرتا فقیری کا غرور
صاحبو! شکر ہے ہم خاک ہوے پاک ہوے
؎ اتنے پیوند ہیں اسرارِ فقیری پہ کہ اب
صاحبِ فقر کو احساسِ قبا ہے بھی نہیں
؎ اک چشمِ خوش گمان چراغوں میں بجھ گئی
اور داغِ انتظار قبا پر نہیں رہا
؎ بتانے والے بتاتے ہیں روشنی کا ظہور
سمجھنے والے بجھے طاق بھی سمجھتے ہیں
؎ میں جاگتے ہوے اک خواب میں اتر آیا
پھر اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی مجھ میں
؎ بہتے ہوئے چراغ سے رہتی تھی گفتگو
پانی میں طاق اور ستارہ تھا ناؤ میں
؎ بس ایک لمس کی قدرت نے روک رکھا ہے
وگرنہ مجھ کو کئی آسماں بلاتے ہیں
؎ قدیمی غار ہے، کوزے ہیں ، آگ ہے ، میں ہوں
مگر یہ خواب ہے کوئی ابھی یہ ہونا ہے
؎ میں لگاتا ہوں زمانے میں زمانوں کی گرہ
مجھ کو معلوم ہے آواز کدھر جاتی ہے
؎ کوئی اسرارِ کن ہے یا علامت ہے فقیری کی
قدیمی غار سے اک آئینہ بردار کا ملنا
؎ جانے والا کسی صورت بھی نہیں رک سکتا
آنے والا ترے لشکر سے نہیں جائے گا
؎ زمیں پہ اس کا مرے ساتھ ساتواں دن ہے
وہ اس سے پہلے کوئی فردِ آسمانی تھا
؎ سفید پھول اترتے ہیں آیتیں پڑھتے
یہ میرا خواب ہے یا ملگجا ہے دریا میں
؎ مری نظر کہیں مرکوز ہونے والی ہے
مجھے بتایا گیا غار کی علامت سے
؎ اس سے پہلے کہ مرے زخم نمایاں ہوتے
غار میں آگ جلاتے ہوئے محتاط رہا
؎ داستاں اور تھی معدوم صحیفے پہ لکھی
واقعہ اور ہی لوگوں نے سنایا تھا اسے
؎ دیکھنا یہ ہے کسے آبِ بقا ملتا ہے
حجرۂ عشق میں منصور بھی ہے اور میں بھی
؎ رونقِ حجرۂ درویش بھی معذول ہوئی
اب وہاں فقر تمنا سے بھرا رہتا ہے
؎ آیتِ عصر ذرا دیکھ قدیمی آنکھیں
میں کسی وقت میں مجذوب ہوا کرتا تھا
؎ تو غلط سوچ رہا ہے مرے ہمزاد نما
میری اک عمر لگی ہے تجھے بہکانے میں
اب یہ مشکل ہے کہ یہ غار بتاتا ہی نہیں
کس قدر وقت ہے درکار پلٹ آنے میں
؎ ملگجے سے کوئی توریت لیے گزرا ہے
یہ نمو داریِ انجیل ہے دورانِ سفر
؎ دیکھ ! دیکھے سے پتا چلتا ہے مجھ سالک کو
راغبِ عجز و مناجات خطا نے کیا تھا
؎ نہ باخبر ہوں زیادہ نہ بے خبر ہوں میں
زمیں پسند ہوں اور آسمان پر ہوں میں
؎ پہلے وقتوں میں سمندر پہ اڑا کرتا تھا
وہ ستارا جو بتاتا مری تکمیل مجھے
؎ یہ بھی ممکن ہے کرے پھر سے تعلق کو بحال
یہ بھی ممکن ہے اسے اس کی ضرورت ہی نہ ہو
زمین پسند شاعروں کو آسمان پر ہونے کے باوجود اپنے تعلق کو بحال رکھنا چاہیے بہرحال ضرورت تو سفر کے دوران میں مسافر کو پڑتی ہی ہے۔ کہیں سایہ دیکھ کے رکنا بھی پڑتا ہے اور سفر کاستارہ دیکھ کے آگے بڑھنا بھی۔ ان دو دہائیوں میں اپنی اپنی راہ پہ چلنے والے ان شاعروں نے ثابت کر دیا ہے کہ کس کا کیا معاملہ ہے اور کس نے غار، ناؤ، چراغ، آئینہ، کوزہ، چاک اور سمندر کو محض لفظ ہی نہیں رہنے دیا بلکہ ایسی علامات اور اساطیر میں بدل دیا ہے جن کی کلید ہاتھ آ جائے تو نئی دنیاؤں کے ہی نہیں آسمانوں کے در بھی وا ہو جاتے ہیں۔
؎ سفید پھول اترتے ہیں آیتیں پڑھتے
یہ میرا خواب ہے یا ملگجا ہے دریا میں
قصیدے سے جنم لینے والی غزل میں کس طرح ایک ارفع ترین محبوب کا تصور دھیرے دھیرے ارتقا پذیر ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن عماد اظہر کی غزل ہمیں روایت میں ملنے والی ان نایاب مثالوں میں سے کچھ کی طرف متوجہ کر دیتی ہے کہ جس کی طرف ایک بلیغ اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:
؎ تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو ہی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
اور اسی کائنات گیر راز کی گرہیں ایک اور جگہ اقبال نے یوں کھولی ہیں:
؎ آئیہ کائنات کا معنی دیریاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
ہمارے شاعر کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے اور سادہ سے کمرے کی دیوروں پر صرف ایک کائنات گیر اسم جگمگا رہا تھا”محمدﷺ”۔۔۔میری متجسس آنکھوں کا تعاقب کرتے ہوئے ملگجے میں سانس لیتے شاعر نے کہا ” سب کچھ صرف یہی ہیں۔ ہمار ا کچھ نہیں ہے۔ بس یہی ہیں۔ ” ہائے ہائے عدنان بشیر حیف کہ ” ساتواں دن” کی سب سے اہم کلید ہی لکھنے سے رہ گئے تھے۔ غزل میں چند استثنائی مثالوں کے علاوہ کہاں ایسا ملتا ہے کہ غزل حسن و عشق کی بات کرتے کرتے اچانک نعت میں بدل جائے اور پھر سے غزل کے راستے پر چل نکلے ۔۔۔ شاید اس کا آغاز غالب ہی سےہوا تھا:
؎ کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوئے ظن ہے ساقیِ کوثرؐ کے باب میں
غالب سے طلوع ہونے والی اس رسم میں حیات و کائنات کی گفتگو کرتے ہوئے اچانک منیر نیازی مقطع کہہ کے غزل کو نعت کر دیتے ہیں :
؎ فروغِ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیر
قدیم یاد نئے معبدوں سے پیدا ہو
اور پھر ثروت حسین ہاتھ میں سرخ قندیل تھامے نمودار ہوتے ہیں اور غزل کے دشت میں تشنہ کام پھرتے غزال کو سیرابیوں کی نوید سناتے ہوئے چشمۂ آبِ بقا پہ لے آتے ہیں:
؎ غزال تشنہ بھٹکتا ہے کس جہنم میں
کنارِ آب سے پیمان کیوں نہیں کرتا
محمدؐ عربی کی مثال کو ثروت
کتابِ زیست کا عنوان کیوں نہیں کرتا
ان استثنائی مثالوں میں ہمیں پورے پورے دیوان اور کلیات میں صرف چند مقامات ایسے ملتے ہیں کہ جہاں غزل اس نکتے پر پہنچتی ہے لیکن عماد اظہر کے ہاں پوری کتاب اس نکتے کے گرد گھومتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیا غزل اور پھر کیا نظم یا کیا نثری نظم یا نثم کا میدان۔ یہ آغاز پہلی غزل سے ہی ہو جاتا ہے کہیں صرف اشارے کے ساتھ اور کہیں اس ابد گیر اسم کے مقدس اجالے میں:
؎ چراغِ دیدۂ تر سے درود پڑھتے ہوئے
نقوشں حجرۂ درویش دیکھنے میں تھے
؎ یہ مدینہ ہے یہاں رنج و الم کوئی نہیں
جو گنہ گار بھی عشاق ہوئے پاک ہوئے
؎ وہ لوگ کیسے مدینہ سے لوٹ آتے ہیں
جو اپنے آپ کو عشاق بھی سمجھتے ہیں
؎ درودِ پاک کی خوشبو سے جا ن پاتا ہوں
کوئی فقیر ہے جس کی ہے جھونپڑی مجھ میں
؎ جن صحیفوں میں بہت ذکرِ محمدؐ تھا انھیں
اک جگہ ارض و سماوات نے محفوظ رکھا
؎ یہ کائنات بھی اس غار کی بدولت ہے
جہاں فقیر ہمیشہ دیا جلاتے ہیں
؎ وہیں سے لوگ روانہ ہوئے ہیں میری طرف
جہاں درخت کھجوروں کے اور صحرا ہے
؎ یہ غار اور مدینہ کی سمت جلتا چراغ
اک انتظار میں یہ اہتمام ہونا تھا
؎ وہ غارِ ثور سے باہر نکلنے والا ہے
طلوعِ صبح ہے لشکر نکلنے والا ہے
؎ خوشبوئے فکرِ مسیحا سے بھرا رہتا ہے
ملگجا غیب کی دنیا سے بھرا رہتا ہے
؎ طاقِ اول کو ضرورت تھی دوبارہ سے مری
سو مدینے سے کیا مجھ کو روانہ میں نے
؎ ان چراغوں نے بہت بعد پکارا تھا اسے
ان سے پہلے اسے درویش حرا نے کیا تھا
؎ میں اپنے راز میں اک عمر تک رہاتو کھلا
کہ خاکِ پائے محمدؐ ہوں اور بشر ہوں میں
۔۔۔۔نظامِ فقر
جو صدیوں سے ایک جیسا تھا
اسے بدلنا ہے لیکن نصاب کیا ہوگا؟
سوال کر کے سوالی گلاب رکھتا ہے
خدا کے اذن سے درویش بات کرتے ہیں
نصاب!!
خدمتِ خلقِ خدا!!
محمدؐ کے
غلام
ان کے غلاموں میں صبر بانٹیں گے۔۔۔
؎ حضور ؐ لوگ بتاتے ہیں فاصلے ورنہ
یہ میرا دشت مدینہ سے دور کتنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
وہی ایک درویش کے الفاظ کہ اب مجھ سے اور بات نہیں ہو پائے گی۔۔۔