
فرحت عباس شاہ صاحب
اسلام آباد کے ادبی افق کا ستارہ ،عماد اظہر
دنیا بھر میں انتہاٸی مربوط ، منظم اور متحرک سازشی قوتوں نے جس فعالیت سے پاکستانی کے ادبی مراکز کونشانہ بنایا ہے اس میں کراچی سے بھی پہلے اسلام آباد کا نام آتا ہے ۔ ادبی اداروں پر قابض ، اداروں کے بورڈز میں سراٸیت کرکے بیٹھے اور سرکاری عہدوں سے ذاتی اور ناجاٸز فواٸد حاصل کرنے والے جعلی اور دو نمبر شاعر ادیبوں نے اسلام آباد سے کسی حقیقی سربلند شاعر کو سر اٹھانے ہی نہیں دیا۔ آفتاب اقبال شمیم جیسے قدکاٹھ کے شاعر کو یہاں جس گمنامی کی زندگی میں دھکیل کے رکھا گیا، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ احمد فراز سے مسلسل دشمنی روا رکھی گٸ ، عدیم ہاشمی سے بدلے لیے گٸے ، ڈاکٹر ابرار عمر کو نکال باہر کیا گیا اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے اداروں میں لاۓ گٸے منظور نظر افسروں اور بٹھاۓ گٸے نوکری پرست چوکس کلرکوں کے زریعے ہر جینوٸن ادیب کا اس کی زندگی میں ہی ادبی قتل کروایا گیا۔ کتنے ادیبوں نے خودکشی کی اور کتنے بیمار کرکے مارے گٸے ان کی تعداد الگ ہے ۔ پچھلے ہی دنوں لاجواب نوجوان شاعر
شہزاد اظہر کی طویل علالت کے بعد وفات پر دو دن اس کی شعری عظمت کے گن گا کے فراموش کردیا گیا ۔ اس شہر میں افتخار عارف ، کشور ناہید اور ان کے بعد ان کے کاسہ لیسوں کے علاوہ نہ کسی کو پنپنے دیا گیا ہے نہ شاعرانہ تفاخر کے ساتھ ان کو زندہ رہنے دیا گیا ہے ۔
لیکن اب تیزی سے بدلتے ہوۓ حالات اور ڈھلتی ہوٸی بیوفا عمریں منظر نامے کو تیزی سے تبدیل کرتی نظر آ رہی ہیں ۔ کیا کوٸی سوچ سکتا تھا کہ اوورسیز پاکستانی کنوینشن ہو اور اس کے مشاعرے کا ٹھیکہ ادبی اسٹیبلشمینٹ کے ہاتھ سے نکل جاۓ۔ اسی طرح اب اکیڈمی آف لیٹرز کے بجٹ سے زر کثیر ہڑپ کرکے اپنے فراٸض اور ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرنے والوں کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر کسی وقت بھی ٹرینڈز شروع ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ جن شاعروں کے معاشی تحفظ اور تخلیقی کام کے فروغ کے لیے یہ ادارہ بنا تھا ان کو ہی نشانے پر رکھا گیا ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ کتنے ہی اور جینوٸن شاعروں کی طرح عماد اظہر کو بھی ان اداروں میں مراعات کے مزے لیتے گھس بیٹھیوں اور ادبی قبضہ مافیا نے اپنے شاعر کُش ریڈار پر دھر رکھا ہوگا کیونکہ اس نے اپنی تخلیقی قابلیت اور کلام کے زور پر خود کو عظیم شعراء کے ورثے کا امین ثابت کر دیا ہے ۔ وہ اسلام آباد کے بوڑھے شاعروں کی طرح ساٹھ ساٹھ سالوں سے مکھی پر مکھی مارنے کی بجاۓ ہر دفعہ ایک نٸے اور پہلے سے جداگانہ موضوعات کو پوری شعری تاثیر کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالتا نظر آتا ہے ۔ آپ کبھی غور کریں کہ ہمارے ارد گرد پھیلے بوڑھے شاعر جس طرح کا شعر چالیس سال پہلے گھڑ رہے تھے آج بھی اسی مخصوص لفظی اور تلازماتی داٸرے میں گھومے جا رہے ہیں ۔ جبکہ عماد اظہر کے ہاں ارتقاء کا سفر اتنا نمایاں ہے کہ آسانی سے تصویر کیا جاسکتا ہے ۔ بحیثیت تخلیق کار اس کے ہاں آواز جیسے مظہر کی تخلیق اور خاموشی جیسی ہستی کا اعتراف ایسا شعری رویہ ہے جو کسی دوسرے شاعر میں نظر نہیں آتا۔
میں گزشتہ دنوں سے سوشل میڈیا پر واٸرل ہونے والی اس کی ایک ویڈیو کے اشعار کا لطف لے رہا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی یہ اشعار سنیں اور لطف لیں ۔ اس کے علاوہ ویڈیو میں کچھ بلکل سُن بٹھے حضرات کی شکلیں بھی دیکھیں اور مزا لیں ۔
فرحت عباس شاہ
کوزہ ء خواب ۔ گزشتہ کو دوبارہ سے بھرا
میں نے مٹی کی جگہ دشت کو دریا سے بھرا
غار میں سوۓ ہوئے لوگ بتا سکتے ہیں
چشم۔خوابیدہ کو کس چشم۔نظارہ سے بھرا
شاہزادی ترے بے عیب ارادوں کی قسم
میں نے ہر دست۔دعا تیری تمنا سے بھرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک تماشا ہی سہی بارِ دِگر جاتی ہے
ناو چلتی ہے مگر ریت سے بھر جاتی ہے
یہ جو تنہائی ہے بچھڑے ہوئے لوگوں کا غرور
ساتھ جاگی ہوئی دیوار سے ڈر جاتی ہے
میں لگاتا ہوں زمانے میں زمانو ں کی گرہ
مجھ کو معلوم ہے آواز کدھر جاتی ہے
عماد اظہر
صرف عماد اظہر ہی نہیں اور بھی نہ جانے کتنے عمدہ و اعلیٰ تخلیق کار ہیں جو دہاٸیوں سے عمدہ و اعلیٰ ادب تخلیق کیے جا رہے ہیں لیکن ادبی حلقے ان کی پذیراٸی میں ناکام رہے ہیں ، جس کی وجہ مصنوعی ادیبوں کی اجارہ داریوں کا مفاداتی گھن چکر ہے ۔ چونکہ بیشتر حقیقی ادیب سیلف پروجیکشن سے گریز پا ہوتے ہیں اس لیے مصنوعی ادیبوں کو انہیں کہنیاں مار کے پیچھے رکھنے میں آسانی رہتی ہے ۔ عماد اظہر سے پاکستان کی ادبی اسٹیبلشمینٹ کا خوف بتاتا ہے کہ وہ کس مرتبے کا شاعر ہے ۔ پیارے ناصر علی ناصر کا شکریہ کہ اس کی وساطت سے عماد سے ملاقات بھی ہوٸی اور اسے سننے اور پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ میں اس دفعہ اسلام آباد سے عماد اظہر جیسے عمدہ و اعلیٰ شاعر اور خوبصورت انسان کا تخلیقی فیض اور محبتوں کا سرمایہ لیکر جا رہا ہوں ۔ ان میں سے چند جواہرات آپ کی نذر ۔
فرحت عباس شاہ
عماد اظہر کے شعری مجموعے ، ” ساتواں دن ”
سے انتخاب ۔
میں لگاتا ہوں زمانے میں زمانوں کی گرہ
مجھ کو معلوم ہے آواز کدھر جاتی ہے
جھولتے رہتے ہیں تعویذ سرِشاخِ بدن
یہ مسافر کو بلانے کے لیے ہوتے ہیں
جانے کس سمت لیے پھرتا فقیری کا غرور
صاحبو شکر ہے ہم خاک ہوئے پاک ہوئے
غار میں سوئے ہوئے لوگ بتا سکتے ہیں
چشمِ خوابیدہ کو کس چشمِ نظارا سے بھرا
شاہزادی ترے بے عیب ارادوں کی قسم
میں نے ہر دستِ دعا تیری تمنا سے بھرا
جو تماشا ہے اسے خوف نہیں دِکھنے کا
دیکھنے والے کو منظر سے نکالوں کیسے
میں تجھے مسندِ درویش نہیں بخشوں گا
چاہے تُو اڑتا پھرے چاہے سمندر میں چلے
میں میسر تھا اسے اور میسر کے لیے
اس زمانے میں کوئی خاص جگہ ہے بھی نہیں
خواب میں روز جو پردیس نظر آتا ہے
اس کی تعبیر کہیں شہر سے ہجرت ہی نہ ہو
. . . . . . . . .عماداظہر
فرحت عباس شاہ