قاسم یعقوب صاحب

اسم کا مجاور

عماداظہر ۲۳ فروری ۱۹۷۷ء کو دیپالپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تخلیقی ایام اور شاعری کا ذوق، انھوں نے اسی شہر سے چنا۔ ان کے شعری سفر کا دوسرا پڑاؤ فیصل آباد تھا۔ ۱۹۹۷ء میں فیصل آباد کی زرخیزی نے انھیں جلا بخشی اور تخلیقی جمالیات کا وہ فکری دھارا جو وہ دو دہائیوں سے اپنے سینے میں لیے پھر رہے تھے، اسے دریا کی شکل دینے میں کامیاب ہو گئے۔
عماداظہر کا شعری ہالہ اپنے معاصرین سے حددرجہ مختلف ہے۔ ‘‘موجود’’ ان کی پہلے شعری مجموعہ کا نام تھا مگر موجود کی بجائے ‘وجود’ ان کے گہرے مراقبے کا حصہ بنا رہا جو ابھی تک ان کو شروعِ ذات سے پہلے کا منظر دِکھاتا ہے:

وجودِ مست ہے اور اسم کا مجاور ہے
یہ کشفِ خواب کسی اصل کے برابر ہے
عماد کا تخلیقی ہیولا روایتی نہیں، بلکہ اِکتسابی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بطنِ ذات کی آنکھ سے گنبد ِگردوں دیکھنے لگے ہیں۔وہ اپنے وجود کے غایتی مطالعے میں غرق رہتے ہیں۔ باطن میں جنم لینے والی روحانی اور نفسی تجربات کس طرح اپنی خلقت میں قلب و وجدان کا حصہ بنتے ہیں۔ عماداظہر ان سوالوں کے حصار میں رہتے ہیں۔ غایتی فکر میں ‘موجودات’ سے زیادہ ‘وجود’ کا سوال حیطۂ اظہار میں آتا ہے، یوں عماد کا پہلا اور بنیادی مسئلہ اپنے رُوحانی کرب کا اظہار ہے۔ عماد نے اپنے پہلے مجموعے میں کہا تھا:

ایسا کریں کہ لمحۂ بہتر میں جا ملیں
دونوں غروبِ شام کے منظر میں جا ملیں
مگر اپنے دوسرے پڑاؤ میں انھیں کشفی وارداتوں کے اِضطراب نے آ گھیرا ہے۔ وہ کسی دوسرے کے قریب ہونے کی بجائے دوسرے کو اپنے قریب لائے ہیں۔ اپنے اندر ایک دھمال ڈال رہے ہیں۔
اسی لیے وہ نظروں سے اوجھل ہیں اور الگ تھلگ اپنے ‘وجود’ کی گرہ ُکشائی میں محو ہیں۔
بتانے والے بتاتے ہیں روشنی کا ظہور
سمجھنے والے بجھے طاق بھی سمجھتے ہیں
(قاسم یعقوب)

Light
Dark