محمد حمید شاہد صاحب
عماد اظہر کا مسئلہ ہڈیوں کے ڈھانچ پرٹنگاتھلتھلاتا وجود نہیں بلکہ وہ ذات ہے جو اس کے اندر کہیں ایک گھمائو میں ہے۔ معنی اور جمال کے الگ سے رنگ اُچھالتی اِس ذات سے معاملہ کرتے ہوئے جس تخلیقی تجربے سے وہ گزرتے ہیں ؛ غزل کہیں، نظم یا نثم ایک سرگوشی سی متن کا حصہ کر دیتے ہیں ۔ جی،لفظوں کی کھنک یا اُن کے اندر پیدا ہوتی گونج نہیںبلکہ ایک لطیف سرگوشی۔ کسی معدوم دانش کے قدیمی صحیفے سے سرسرا کر نکلتی اور کُن کے اسرار کھولتی سرگوشی ۔ تخلیقیت کی اس کیفیت سے گزرتے ہوئے ہمارے شاعر کے ہاں ایک الگ سی شعری لغت مرتب ہوتی ہے۔ وجودِ مست، اِسم کا مجاور، رونق ِ حجرہ درویش، خوشبوئے فکرِ مسیحا، آبِ بقا، سبز سنہری دُعا کا پانی، اِسمِ لامکانی، زیتون میں جلا چراغِ وصل، نظام ِفقر ، آیت ِعصر ، راہ بناتا عصا، فضلیت سے جڑے لوگ، ماہ صبر میں پیاس کی کہانی ،اور یہ سلسلہ یوں چلتا ہے کہ دور تک لے جاتا ہے ۔
تو ایسا ہے کہ عماد اظہر کے شعری تجربے میں مدد گار ہو کر آنے والے لفظوں کا یہ ذخیرہ کسی معروف لغت سے اُچک لیے گئے الفاظ نہیں ہیں ؛یہ تو ذات کے قدیم باغ کے وہ پرندے ہیں جن میں شاعر نے خدا کا اِذن پھونک دِیا ہے۔ عماد اظہر کی اسی شعری لغت کے وسیلے سے ، انہیں پڑھتے ہوئے قاری کئی زمانوں سے گزرتا ہے ۔اِنسانی وجود پر گزرتے کئی زمانوں سے ۔ اتنے زمانوں سے کہ رواں وقت کا ہنگامہ معنویت کے اِعتبار سے اپنی آب کھونے لگتا ہے۔یوں نہیں ہے کہعماد اظہر کے ہم عمر معاصرشعرا کے ہاں کسی تلوار کی تیز دھار کی کاٹ جیسا ہو کر متن ہونے والا رواں وقت سرے سے لائق توجہ نہیں رہا؛وہ بھی ہے مگر اسے برتنے کے لیے توازن کا ایسا قرینہ برتاگیا ہے کہ ازل سے رواں وقت کے ساتھ وہ گرہ ہو کر آتا ہے۔ یہی وہ قرینہ ہے جس نے عماد اظہر کی شاعری کے مزاج اور فضا کو مختلف کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ساتواں دِن کی شاعری کو بہت توجہ سے پڑھا جائے گا اوریہ مجموعہ شاعر کی قامت اور توقیر میں اضافے کاوسیلہ بنے گا۔
محمد حمید شاہد
11 نومبر 2021، اسلام آباد