واجد امیر صاحب

‘ساتواں دِن’

علم و ہنرلازم و ملزوم سہی مگر ہنر کئی درجہ بلند مرتبہ رکھتا ہے اگر واقعی ہنر ہو۔ صناعی اپنی ہنروری کا پرچم بلند کیے رکھتی ہے۔ تخلیق خالق کی تعریف جتنی خود کرتی ہے،اس سے زیادہ دوسروں کو تعریف کی طرف راغب کرتی ہے، شاعری بلاشبہ تمام فنونِ لطیفہ میں سب سے اتم سنگھاسن پر براجمان ہے یہ نہ صرف حرف کی بنیاد پر بلکہ لفظ کی زمین پہ احساسات کی عمارت کھڑی کرتی ہے اور یہ سب کچھ تجربات، مشاہدے، مطالعے اور مشق سے ہی ممکن ہو پاتا ہے ان سب کے بعد محسوسات کی تپش آئینۂ صفات فن پاروں پہ ملمع سازی کا کام کرتی ہے پھر کہیں لب سے ہلکی سی واہ نکلتی ہے۔
کوزہ گر تیرے گھرانے کے لیے کچھ نہیں ہے
آج مٹی سے بنانے کے لیے کچھ نہیں ہے
شاعری تمام علوم و فنون سے بہرہ مند ہوتے ہوئے بھی بلاشبہ مجرد ہے یہ اپنا تخلیہ خود تخلیق کرتی ہے۔ تمام علم و ہنر آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں مگر تلمیذ ِرحمان کی قلبی نگاہ کبھی آسمان کی سمت اُٹھتی ہے کبھی اپنے اندر گھومتی رہتی ہے پھر کوئی دَر ساتویں دن کھلتا ہے اور تخئیل بارآور ہوتا ہے۔ لفظ نئے معانی میں ڈھلنے کو بے تاب رہتے ہیں،کبھی لفظ خیال کے لیے چھوٹے پڑتے ہیں اور کبھی تخیل کا پرندہ کسی بھی پیراہن میں سما ہی نہیں پاتا۔ شاعر کی مجبوریاں بہت ہوتی ہیں اور تحسین کم۔
عماداظہر کی اپنی شعری فضا ہے جہاں عصری شعور ہوتا ہے دِکھانا مقصود نہیں ہوتا۔ یہ شاعری ذات، کائنات، رُوحانیت، انسانیت کی طرف متوجہ کرواتی ہے۔ زندگی حیرت کی گزرگاہ ہے اور اس گزرگاہ میں قدم قدم پہ موت کھڑی ہے۔ زمانے کروٹیں بدل رہے ہیں انسان گم سم ہے؟ تو ہو گا! مگر تخلیق کار اس کا جواب اپنے خواب و خیال کی دُنیا سے ڈھونڈ لیتا ہے اور کہتا ہے:
مجھ کو دفنائے ہوئے لوگ مِلا کرتے ہیں
جو بتاتے ہیں بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے
یہی تو قرآن کہتا ہے ‘‘جب انھیں قبروں سے اُٹھایا جائے گا تو کہیں گے ہمیں کس نے ہماری خواب گاہوں سے اُٹھا دیا۔’’
جہاں عماداظہر اظہار کے لیے تنگ نائے غزل کو ناکافی سمجھتا ہے وہ وسعت ِنظم کی طرف نکل پڑتا ہے وہاں بھی وہ خود کو بہت سی خودساختہ پابندیوں میں محصور کر کے اپنی اُنہی علامات سے کلام کرتا ہے جو نہ خاص الخاص مذہبی ہیں نہ اِصلاحی ہیں بلکہ تمام تر رُوحانی تجربات کی مرہونِ منت ہیں۔ اُس کی یہ دُنیا صرف دل کی دُنیا ہے جو ہر کسی پہ وا نہیں ہوتی کشف اس کی پہلی سیڑھی ہے،نہ یہ شاعری ملامتی ہے نہ علامتی، یہ تو بس ایک طلسماتی کیفیت کا ملگجا سا تجربہ ہے۔ نظم کا یہ حصہ اِسی طرف اِشارہ کر رہا ہے
‘‘ سُرمئی آنکھ کے محراب’’
دمک اُٹھتے ہیں
ملگجے میں کسی سرسبز شجر کا سایہ
اور سفیدی سے بھرے حوض میں خوشبو کا طلسم
سارے وسیلے، واسطے، رابطے، ضابطے اُس کی طرف بلاتے ہیں جس کا سب کچھ ہے، جس کے ہم سب ہیں، مجازی عشق نامکمل ہے جب تک توجہ، دھیان، گیان اسی کی طرف نہ ہو جو اس کے لائق ہے اور یہی کچھ عماد کہہ رہا ہے:
خدا کا عشق کمانا بھی ایک نعمت ہے
بس اتنی بات کہی
رنگ رنگ کی چادر۔۔
بچھائی۔۔۔۔
اور چراغوں کے طاق جلنے دِیے
فقیر موج میں تھا۔۔۔
ساری نظم تو لکھی نہیں جا سکتی۔
عماداظہر کی شاعری میں تمام تر شعری لوازمات وہی ہیں تو سہی اور مروّجہ شعری منظرنامے کی رنگینی بڑھا رہے ہیں مگر انہی تمام اِستعاروں کو عام سطح سے ہٹ کے مختلف مفاہیم دیے گئے ہیں۔
شعری رچاؤ میں تیقن کے باوجود تشنگی کی کیفیت نہ ہو، وہم و گماں نہ ہو، دُھندلکا نہ ہو، موہوم کی خواہش، اَن دیکھے کی کشش اور معدومیت کا خوف نہ ہو تو کیا ہماری شعری اساس دھڑام سے نہ گر جائے؟ یہیں دیکھ لیجیے:

باعثِ اجر پسِ روزِ جزا ہے بھی نہیں
ہو بھی سکتا ہے خدا اور خدا ہے بھی نہیں
ندرتِ خواب ہے آواز کے سائے میں کہیں
اور اس خوابِ قدیمی کو پتہ ہے بھی نہیں
آخر میں یہی عرض کرنا ہے۔ شاعری حسیت ِشعری سے اگر تہی ہے تو محض لفاظی ہے اور یہ کسی کام کی نہیں، شاعری نہ اِصلاحی نہ اِصطلاحی ہوتی ہے بس شعری رس کی ندی ہوتی ہے، جیسے کہ یہ:

درویش بارگاہِ خدا پر نہیں رہا
اب اس کا اِنحصار جزا پر نہیں رہا
اِک چشمِ خوش گمان چراغوں میں بجھ گئی
اور داغِ انتظار قبا پر نہیں رہا
______
پھر ایک روز نکالا گیا ہمیں تم سے
کئی زمانوں سے ہم ایک دوسرے میں تھے
تو صاحبو اس شاعر کا لطف لیجیے۔
(واجدؔامیر)

Light
Dark