ڈاکٹر وحید احمد صاحب
آج رنگ ہے
رنگ ِبین لگا کر جب میں نے ‘‘ساتواں دن’’ کے مسوّدے کا مطالعہ کیا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ اسی مجموعے میں بالا بنفشی اور زیر احمیریں رنگ بہتات میں ہیں۔مخفی رنگوں کی یہ کثرت مجھے کسی اور شعری مجموعے میں اس شعری وفور کے ساتھ کبھی نظر نہیں آئی۔ہوتا کیا ہے کہ عموماً شعرائے کرام اپنے مجموعۂ کلام میں نظر آنے والے دھنک کے رنگ بکھیرتے ہیں۔ بیش تر شاعروں کا ایک یا چند ایک رنگوں پر ملکہ ہوتا ہے۔جب کہ قادر الکلام شاعر دھنک کے سارے رنگ اجاگر کرتے ہیں۔کہیں کاریگری یا کرافٹ کے شجر پر جامن ّپتوں سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں تو کہیں صنعتِ ُحسنِ تعلیل اور صنعتِ مہملہ آسمان اور سمندر کی طرح نیلاہٹ بکھیرتی ہے۔کہیں مضمون آفرینی کا سبزہ لہلہاتا ہے تو کہیں تہ داریِ معانی کی پیلاہٹ آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔کہیں بلند آہنگ طنطنہ چڑھتے اور اُترتے سورج کی نارنگی پیش کرتا ہے تو کہیں رمز و کنایہ اور رمز و ایمائیت رخسارِ سخن کو گلال کرتی ہے۔مگر دھنک کے یہ سارے رنگ تمام استادی کے باوجود نظر آتے ہیں۔لیکن بالا بنفشی(Ultraviolet) اور زیراحمریں (Infrared) رنگ دکھانا اور سارے مجموعۂ کلام میں تسلسل سے دکھانا بہت خوش قسمت شاعروں کے حصّے میں آتا ہے۔یہ دونوں رنگ کیا ہیں؟ ایک رنگ خودی ہے اور دوسرا بے خودی، مگر یہ خودی اور بے خودی ان روایتی معانی میں ہر گز نہیں ہیں جو نقّاد ہمیں گزشتہ اسّی سال سے بتا رہے ہیں۔
خودی سے مراد کشفِ ذات ہے اور بے خودی سے مراد معرفت ہے۔عماد اظہر کی شاعری ان نو رنگوں کی شاعری ہے۔گویا روایتی شعری دھنک کا چہرہ دو رنگے آنچل میں جگمگاتا ہے۔ وہ آنچل جو رنگ ِبین لگانے سے نظر آتا ہے۔حضرت داتا گنج بخش کشف المحجوب میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:
‘‘علماء اصولِ علم و معرفت کے درمیان فرق نہیں کرتے اور دونوں کو ایک ہی کہتے ہیں۔لیکن مشائخِ طریقت ایسے علم کو جو معاملہ اور حال سے متعلّق ہو اور اس کا عالم اپنے حال کو اس سے تعبیر کرے معرفت کہتے ہیں۔ اور اس کے جاننے والے کو عارف۔اور جو علم ایسا ہو جس کے صرف معانی ہی ہوں اور وہ معاملہ سے خالی ہو اس کا نام علم رکھتے ہیں اور اس کے جاننے والے کو عالم کہتے ہیں۔ عالم اپنی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے اور عارف اپنے رب کے ساتھ۔’’
لائل پور شہر کے مضافات میں ایک جگہ ہے دار الاحسان،یہاں ایک خانقاہ ہے جو قرآن محل کی مہک میں مہکتی اور ساندل بار کی دھوپ میں چمکتی ہے۔صوفی برکت علی کی یہ درگاہ علم و آگہی کا خزانہ ہے جو ضرورت مندوں میں حسبِ توفیق تقسیم ہوتا ہے۔یہ آستانہ مرکزِ تجلیات ہے جس کی روشنی دلوں کو منوّر کرتی ہے۔عماد اظہر کی کتاب ‘‘ساتواں دن’’ اسی مبارک نام سے آغاز کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں برکت ہے۔
جھولتے رہتے ہیں تعویذ سرِ شاخِ بدن
یہ مسافر کو بلانے کے لیے ہوتے ہیں
عماد اظہر کی شاعری میں صوفیانہ رنگ بہت نمایاں ہے۔جب اسپِ خیال کو تصوف مہمیز کرتا ہے تو رفتار کی دھج اور راستوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ رہوار حیرت سرائے کی جانب چل نکلتا ہے، یوں کہ شہسوارحیرتی ہوتا ہے اور قاری حیرت زدہ۔مضمون آفرینی ہر قابلِ ذکر شاعر کا طرّۂ امتیاز ہے۔ مگر عماد کے ہاں مضمون کا برتاؤ یا ٹریٹمنٹ ایسی خاص ہے کہ معنی خیزی طلسم پہن لیتی ہے۔آئینہ، وقت، پانی،غار،خواب،پرندے، چراغ، صحیفے، جادو، اسمِ اعظم، چشمِ خفی اور ان سے ملتے جلتے کئی الفاظ عماد کی شاعری میں تکرار کرتے ہیں۔یہ کوئی نئے الفاط نہیں، شاعروں کی مشقِ سخن کے لیے بہت پسندیدہ الفاط ہیں۔ مگر عماد کا سلوک اور برتاؤ کچھ ایسا ہے کہ معانی بدل جاتے ہیں، منظر بدل جاتا ہے۔نعت کے اشعار دیکھیے:
درودِ پاک کی خوشبو سے جان پاتا ہوں
کوئی فقیر ہے جس کی ہے جھونپڑی مجھ میں
میں جاگتے ہوئے اک خواب میں اتر آیا
پھر اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی مجھ میں
شہزادی کو محل سے تو نکالا جا سکتا ہے، منتر سے نہیں۔اور منتر بھی وہ جو دیوتاؤں نے پھونکا ہو۔الامان و الحفیظ۔جب ۳۷۸۱ میں جیمز میکسویل(James Maxwell) نے سکاٹ لینڈ میں Electromagnetic Theoryبنائی تو اس نے ثابت کیا کہ مادے سے نکلنے والی شعاعوں میں بر ّقیت بھی ہے اور مقناطیسیت بھی۔یہ برق مقناطیسی قوت ہے جو تمام نظامِ کائنات چلاتی ہے۔مگر شاعر کہتا ہے کہ مادے کی یہ قوت تو ریاضی اور طبیعاتی مساواتوں سے دائرۂ ادراک میں سما سکتی ہے مگر مابعد الطبیعیاتی برق مقناطیس کی قوت سائنس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔اس قوت کی پکڑ کششِ ثقل سے زیادہ گرفت کرتی ہے۔شاعر کہتا ہے کہ شہزادی منتر کے برق مقناطیسی کساؤمیں ہے۔اس پر طرّہ یہ کہ افسوں دیوتاؤں نے پھونکا ہے۔ اب اس بے آسرا پن کا کیا کیا جائے:
دیوتاؤں کے برابر سے نکالوں کیسے
شاہ زادی تجھے منتر سے نکالوں کیسے
ریاضی دانوں کا گلہ اپنی جگہ، مگر گنتی سات کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔سات کے بعد آنے والے سب ہندسے پہلے سات ہندسوں کا Hang Overہیں۔چھ دن میں کائنات بنی تھی اور ساتویں دن آرام کیا گیا تھا۔چنانچہ اب جو بھی ہے وہ ساتواں دن ہے۔کون و مکاں
کی تشریح کرتی ریاضی کی گنجلک مساواتیں اور طبیعات کے دقیق کُلیے خیال کی شطرنجی بساط پر چلتے مہروں سے زیادہ کچھ نہیں۔شعر دیکھیے جس میں شاعر نے حقیقت اور مجاز کو عین برابر لا کھڑا کیا ہے۔کہتے ہیں کہ ایک فردِ آسمانی کو میرے ساتھ رہتے سات دن ہو گئے، اب وہ دنیا کے بنائے ہوئے وقت اور کیلنڈر کے Vicious Circleمیں گرفتار ہو جائے گا اور فردِ آسمانی سے فردِ فانی میں تبدیل ہو جائے گا۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ خدا کو میرے ساتھ رہتے ہوئے سات دن ہو گئے ہیں، اب میں اس سے گھڑیاں اور کیلنڈر چھپاتا پھر رہا ہوں کہ وہ کیا سوچے گا…….!!!!!
زمیں پہ اس کا مِرے ساتھ ساتواں دن ہے
وہ اس سے پہلے کوئی فردِ آسمانی تھا
انسان صرف اپنے ارتقاء میں دلچسپی رکھتا ہے۔ڈارون کی تھیوری کو صحیح یا غلط ثابت کرتا رہتا ہے۔کیا کبھی آپ نے صحیفوں کی ارتقاء پذیری کے بارے میں سنا ہے؟ موحدانہ مذاہب میں صحیفے ایک ترتیب سے اترے ہیں گویا ان کا ارتقاء ہوا ہے۔عیسیٰ نے پیدا ہو تے ہی لوگوں سے خطاب کیا تو لوگ حیران رہ گئے۔جب شام کو لوگوں کا جمگھٹا َچھٹ گیا تو مریم کیا دیکھتی ہے کہ کوئی ہیولا جھُٹپٹے میں عہد نامۂ عتیق تھامے کسی لرزاں سراب کی طرح گذر رہا ہے۔تو مریم نے بے اختیار کہا:
ملگجے سے کوئی توریت لیے گزرا ہے
یہ نموداریِ انجیل ہے دورانِ سفر
تو عیسیٰ نے سن کر تبسم کیا……..!!!!
یہ چند مثالیں ہیں جو میں نے عماد اظہر کی طلسماتی شاعری سے پیش کی ہیں۔عماد کی شاعری میں جو طلسم کاری ہے اس کا سہانا اثر قاری پر ہوتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا تعلق لائل پور کے دبستان سے ہے۔لائل پور، جس کی مٹی میں عطا اور فضا میں تخلیقی وفور کی مہک ہے۔
‘‘ساتواں دن’’کیا ہے؟ ایک ادبی تثلیث ہے۔اگرچہ کتاب میں متفرق اشعار کے موتی بھی بکھرے ہوئے ہیں مگر بنیادی طور پر کتاب کے تین حصّے ہیں۔پہلا حصہ غزلوں، دوسرا نظموں، اور تیسرا نثری نظموں پر مشتمل ہے۔سخن کی اس مثلث کے تینوں ضلعے دلنشین اور تینوں زاویے موزوں ہیں۔غزلوں کی طرح نظمیں بھی اپنے اندر عمادی اندازِ بیان کا مخصوص سحر لیے ہوئے ہیں۔‘‘افسردہ پرندے’’ ہوں یا ‘‘سمت’’ یا ‘‘ساتواں اشارہ’’ سب نظموں کی کشش شدید ہے۔نظم ‘‘ساتواں اشارہ’’ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر نے سدرۃ المنتہیٰ سے اشارہ مانگا ہے جہاں زمان و مکاں اپنے سارے پل ِچھن کے ساتھ پتوں کی طرح جھلک رہے ہیں۔نثری نظموں میں ‘‘وہ’’،‘‘طاق’’اور ‘‘آدھے لفظ’’شاندار ہیں۔یہ عماد اظہر کی شاعری کا امتیاز ہے کہ یہ خود کفیل، خوددار اور قناعت پسند شاعری ہے۔سوائے نثری نظموں کے ایک آدھ لفظ کے، سارا کلام اس اردو میں لکھا گیا ہے جو خالصتاً شعر و سخن کی زبان ہے۔ یہ مشرق کی شاعری کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس میں مغرب یا کسی اور مکتبۂ فکر کی پرچھائیں تک نہیں ہے۔
ڈاکٹروحیداحمد
راولپنڈی
۴ نومبر ۲۰۲۱ء