جلیل عالی صاحب
ساتواں دن
عام طور پر سِریّت ، تصوف اور اسلامی تصوف کے معنیاتی منطقوں کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔اگر نیت کا فتور نہ بھی سمجھا جائے تو اشتراکیت کے غلغلے کے زمانے میں برِ صغیر کے مسلم صوفیا کو اسلام گریز انسان دوستی کا نقیب بنا کر پیش کیے جانے کو عجزِ تفہیم کا شاخسانہ قرار دینا نا گزیر ہے۔ سریت وجودِ باری سے لا تعلق رہ کر زندگی اور کائنات کے مخفی و ماورائی اسرار کی دریافتی دُھن سے عبارت ہے۔ تصوف وجودِ باری کے عرفان کے جتن کرنے کا نام ہے،جو کسی مذہبی روایت کے وسیلے سے بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔مذہبی روایت سے منسلک تصوف کی پہچان اس مخصوص مذہبی روایت سے ہوتی ہے جسے قربِ خدا کا وسیلہ بنایا جاتا ہے۔جہاں تک اسلامی تصوف کا تعلق ہے اس میں حقیقتِ محمدی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس میں عشقِ رسول (ص) کی برکت ہی سے سلوک کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر یہ بھی عرض ہے کہ انسان دوستی کو لازمی طور پر مذاہب سے متبائن آئیدیالوجی گرداننے والوں کو جاننا چاہیے کہ مذہب تو کجا کوئی نظریۂ حیات بھی انسان دوستی کی آفاقی جہت سی خالی نہیں ہوتا۔
ان معروضات کی روشنی میں دیکھا جائے تو عماد اظہر کی شاعری بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ اس کے سفرِ سلوک میں کلیدی ہستی مرشدوں کے مرشد حضورِ پاک (ص) ہی کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ(ص) ہی کے وسیلے سے حسن و حقیقتِ مطلقہ کی طرف سفر کے مراحل طے ہوتے ہیں۔اور پینڈا کھوٹا ہونے کا کوئی احتمال نہیں رہتا۔عماد اظہر کی شاعری معروضی معانی کی تشکیل سے آگے عشق و عرفان کی لطیف کیفیات کے نفسی و روحانی رپورتاژ کی حیثیت رکھتی ہے۔وہ ایک قلندرانہ سر مستی کے ساتھ راہِ سلوک کی ارتفاعی مسافتوں کا حال تصویرنے میں منہمک ہے۔ہماری دعا ہے کہ خالقوں کا خالق اسے جلد از جلد معراجِ عرفان سے سرفراز کرے اور ہم اسے ایک ارتفاعی مراجعت کے ساتھ فضائے بدر و حنین اور مدینائی حوالوں کی جلالی و جمالی حکمتوں کے منطقوں میں متحرک ہوتے اور وجود کے جملہ مراتب پر حیات افروز شعور و بصیرت عام کرتے دیکھیں۔
“ساتواں دن” کے شاعر کی سچی روحانی شعری واردات نے اس کی لفظیات اور علامتوں کو بھی منفرد رنگ و آہنگ سے ثروت مند کر رکھا ہے ۔ اس مجموعے میں شامل بیشتر تین تین چار اشعار کی غزلیں اس کے تخلیقی حدود سے تجاوز نہ کرنے کی گواہی دینے کے ساتھ ساتھ زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں کہ اس انتہائی منتخب کلام سے اشعار کا مزید انتخاب محال ہے۔ لہٰذا مجبوراً نمونے کے طور پر چند اشعار کے اندراج پر اکتفا کرنا ہو گی۔
جانے کس سمت لیے پھرتا فقیری کا غرور
صاحبو شکر ہے ہم خاک ہوئے پاک ہوئے
حلقۂ آب سے تصویر اٹھائی میں نے
دوسری شکل بھی اپنی ہی بنائی میں نے
شاہزادی ترے بے عیب ارادوں کی قسم
میں نے ہر دستِ دعا تیری تمنا سے بھرا
جیسے کچھ خواب بھلے لگتے ہیں بینائی کو
ویسے کچھ خواب ڈرانے کے لیے ہوتے ہیں
میں لگاتا ہوں زمانوں میں زمانوں کی گرہ
مجھ کو معلوم ہے آواز کدھر جاتی ہے
جو تماشا ہے اسے خوف نہیں دِکھنے کا
دیکھنے والے کو منظر سے نکالوں کیسے
ایک تو وہ ہے جو لہروں میں بناتا ہے بھنور
دوسرا اس کے علاؤہ ہے سرِ آبِ رواں
یہ غار اور مدینے کی سمت جلتا چراغ
اک انتظار میں یہ اہتمام ہونا تھا
بیٹھتا اٹھتا ہوں میں اتنے زمانوں میں کہ اب
میرے اپنے ہی زمانے کے لیے کچھ بھی نہیں
یہیں کہیں سے پرندے گزرنے والے ہیں
یہیں کہیں سے سمندر نکلنے والا ہے
تمہیں دکھائی جو دیتا ہے آسماں سے پرے
وہ راستہ مرے اندر نکلنے والا ہے
خوب بہا مجھ سے نہ مانگو کہ یہ مرنے والا
اس قبیلے کے لیے تیر بنانے لگا تھا
دیکھنا ہے کہ کسے آبِ بقا ملتا ہے
حجرۂ عشق میں منصور بھی ہے اور میں بھی
آنے والے کو کئی بار بتایا میں نے
میری وحشت سے پرے طور بھی ہے اور میں بھی
راہِ اسرار میں ایسی بھی جگہ ملتی ہے
جس جگہ دشت بھی دریا سے بھرا رہتا ہے
ہماری خیر ہے ہم جانتے ہیں راہِ سکوت
تمہیں سفر کا ستارہ بنائے جاتے ہیں
مجھ سے پہلے بھی کئی بار مرا ذکر ہوا
مجھ سے پہلے بھی گزارا ہے زمانہ میں نے
ان چراغوں نے بہت بعد پکارا تھا اسے
ان سے پہلے اسے درویش حرا نے کیا تھا
نہ با خبر ہوں زیادہ نہ بے خبر ہوں میں
زمیں پسند ہوں اور آسمان پر ہوں میں
میں اپنے راز میں اک عمر تک رہا تو کھلا
کہ خاکِ پائے محمد ہوں اور بشر ہوں میں
خواب میں روز جو پردیس نظر آتا ہے
اس کی تعبیر کہیں شہر سے ہجرت ہی نہ ہو
جن صحیفوں میں بہت ذکرِ محمد(ص)تھا انہیں
اک جگہ ارض و سماوات نے محفوظ رکھا
یہ کائنات بھی اس غار کی بدولت ہے
جہاں فقیر ہمیشہ دیا جلاتے ہیں
نظموں میں “نعمت”،”صاحب”،”سوالی”،”تعارف”،منظر پہ بندھی گرہ”،”وہ”،”عصر” اور “گرہ”عماد کی اپنی دنیا کی دلنشین کہانی کہتی ہیں۔….
جناب جلیل عالی (اسلام آباد)